سان مارینو، جو دنیا کے سب سے چھوٹے جمہوری ممالک میں شمار ہوتا ہے، دوسری عالمی جنگ کے دوران بظاہر غیر اہم دکھائی دے سکتا ہے، لیکن اس کی جغرافیائی حیثیت اور یورپی سیاسی دلدل میں واقع ہونے کی وجہ سے اسے کئی سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ 2025 میں جب دنیا جنگی تاریخوں کو نئے زاویوں سے دیکھ رہی ہے، سان مارینو جیسے چھوٹے ملکوں کا کردار بھی نئے سرے سے زیر بحث آ رہا ہے۔ تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ غیر جانبدار رہنے کے باوجود، سان مارینو کو فاشسٹ اطالوی حکومت، جرمن فوجوں کی پسپائی، اور اتحادیوں کے حملوں سے متاثر ہونا پڑا۔ موجودہ عالمی سیاست میں غیرجانبداری کے اصولوں پر بحث ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہے اور سان مارینو کی تاریخ اس حوالے سے اہم مثال بن سکتی ہے۔
سان مارینو کی دوسری عالمی جنگ میں غیرجانبداری کی کوشش
سان مارینو نے رسمی طور پر جنگ کے آغاز میں خود کو غیرجانبدار قرار دیا، لیکن اس کی سرحدوں کے قریب اطالوی فاشسٹوں کی سرگرمیاں اور بعد میں جرمن فوجوں کی موجودگی نے اس کی پالیسی کو چیلنج کر دیا۔ اگرچہ یہ ملک رسمی طور پر اتحادی یا محوری قوتوں میں شامل نہیں تھا، لیکن اس کی جغرافیائی پوزیشن نے اسے ایک ایسے میدان میں تبدیل کر دیا جہاں چھوٹے فیصلے بھی بڑے نتائج کا باعث بنے۔ 1944 میں برطانیہ کی افواج نے اس پر حملہ کیا کیونکہ انہیں یقین تھا کہ جرمن فوجی یہاں چھپے ہوئے ہیں۔
برطانیہ کی بمباری اور اس کے نقصانات
ستمبر 1944 میں برطانیہ نے سان مارینو پر بمباری کی، جس میں 63 افراد جاں بحق ہوئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس علاقے میں جرمن فوجی موجود نہیں تھے، لیکن حملے کے اثرات طویل مدتی ثابت ہوئے۔ اس واقعے نے عالمی سطح پر چھوٹے ممالک کی خودمختاری اور غیرجانبداری کی حیثیت پر سوالات کھڑے کیے۔ جنگ کے بعد برطانیہ نے سان مارینو سے معذرت کی، لیکن یہ واقعہ عالمی تاریخ میں ایک سنگین غلطی کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔
فاشزم کے زیر اثر سیاست اور داخلی صورتحال
سان مارینو کی سیاست پر دوسری عالمی جنگ سے قبل ہی فاشزم کے اثرات پڑ چکے تھے۔ اگرچہ اس ملک کا آئینی نظام آزاد اور پرانا تھا، لیکن 1920 کی دہائی میں اطالوی فاشسٹوں کے زیر اثر اس کے سیاسی اداروں پر گرفت مضبوط ہو گئی۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہ اثر اس قدر بڑھ گیا کہ جرمنوں کے داخلے کے وقت اندرونی مزاحمت تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی۔ تاہم کچھ حلقے خاموش مزاحمت کرتے رہے، جو بعد میں آزادی اور جمہوریت کے لیے سنگ میل ثابت ہوئی۔
جرمن پسپائی کے دوران انسانی المیہ
1944 کے وسط میں جب جرمن افواج اٹلی کے اندرونی علاقوں سے پسپا ہو رہی تھیں، تو انہوں نے سان مارینو کو ایک عارضی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا۔ اس دوران نہ صرف اتحادی افواج کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں بلکہ عام شہریوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ خوراک کی قلت، طبی سہولیات کا فقدان، اور پناہ گزینوں کی آمد نے سان مارینو کی کمزور معیشت پر گہرا اثر ڈالا۔ ان واقعات نے بعد از جنگ انسانی ہمدردی کی پالیسیوں کو جنم دیا۔
جنگ کے بعد کی بحالی اور سیاسی اصلاحات
دوسری عالمی جنگ کے بعد سان مارینو نے خود کو ازسرنو تعمیر کرنے کی کوشش کی۔ سیاسی اصلاحات کے تحت فاشزم کا خاتمہ کیا گیا اور جمہوری ادارے بحال کیے گئے۔ جنگی نقصانات کے ازالے کے لیے مختلف عالمی اداروں سے تعاون حاصل کیا گیا۔ خاص طور پر اقوام متحدہ اور یورپی تنظیموں کی مدد سے سان مارینو نے نہ صرف تعمیر نو کی بلکہ اپنے آپ کو ایک پرامن اور ترقی یافتہ ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔
جدید عالمی سیاست میں سان مارینو کی ساکھ
آج سان مارینو کو ایک غیر جانبدار، پرامن اور ثقافتی طور پر مالا مال ریاست کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کی دوسری عالمی جنگ میں غیرجانبداری، برطانیہ کی بمباری کے باوجود، ایک تاریخی سبق ہے کہ چھوٹے ممالک بھی بڑے عالمی سیاسی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ موجودہ دور میں، جب نیوٹرل پالیسیز دوبارہ موضوع بحث بن رہی ہیں، سان مارینو کی جنگی تاریخ ایک مدلل اور بصیرت افروز مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔
*Capturing unauthorized images is prohibited*