نرسنگ کا شعبہ جہاں انسانیت کی خدمت اور جان بچانے کا مرکز ہے، وہیں اس میں ذرا سی غفلت بھی بڑے نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ حالیہ طبی تحقیقی رپورٹس اور WHO کی گائیڈ لائنز کے مطابق، دنیا بھر میں نرسنگ کے شعبے میں ہونے والی غلطیوں کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا ہے، خاص طور پر طویل شفٹ، سٹاف کی کمی، یا تربیت کی کمی کی وجہ سے۔ ان غلطیوں سے مریضوں کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے، اسپتال پر قانونی دباؤ بڑھتا ہے، اور مریض کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے۔ اسی لیے ان غلطیوں کی شناخت اور ان کے مؤثر حل پیش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس بلاگ پوسٹ میں ہم نرسنگ کے دوران پیش آنے والی عام غلطیوں کو مفصل انداز میں بیان کریں گے، ان کے پیچھے چھپی وجوہات کا جائزہ لیں گے، اور قابلِ عمل حل بھی پیش کریں گے تاکہ ہر نرس اپنے کیریئر میں بہتری لا سکے اور مریضوں کو محفوظ ماحول فراہم کر سکے۔
مریض کی شناخت میں غلطی: ایک چھوٹی غفلت، بڑے نتائج
نرسنگ کے روزمرہ کاموں میں سب سے عام مگر سنگین غلطی مریض کی شناخت میں غلطی ہے۔ جب نرس مریض کو دوا دیتی ہے یا کسی ٹریٹمنٹ کیلئے تیار کرتی ہے، تو غلط مریض کا انتخاب ناقابلِ تلافی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ مسئلہ زیادہ تر اُس وقت پیش آتا ہے جب نرسوں کو بیک وقت کئی مریضوں کو سنبھالنا پڑتا ہے، یا جلدی میں شناختی پروسیس کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
اس کا حل ہے “دوہری شناختی چیکنگ سسٹم” کا اطلاق، جہاں مریض کا نام اور میڈیکل ریکارڈ نمبر دونوں بار بار چیک کیے جائیں۔ بار کوڈ سسٹم کا استعمال بھی مؤثر ثابت ہوا ہے۔ اس کے علاوہ نرسوں کو وقتاً فوقتاً شناخت کے پروٹوکول پر تربیت دینا ضروری ہے تاکہ یہ غلطی کم سے کم ہو۔
دواؤں کی انتظامی غلطیاں: وقت، خوراک اور طریقہ
ادویات کی انتظامی غلطیاں نرسنگ کے شعبے میں نہایت عام ہیں، جن میں دوا کا غلط وقت، غلط خوراک، یا غلط طریقے سے دینا شامل ہے۔ بعض اوقات نرس جلدی میں یا تھکن کے باعث دوا کی مقدار یا طریقہ کار میں غلطی کر بیٹھتی ہے۔ اس کا نتیجہ مریض کی حالت بگڑنے یا الرجک ری ایکشن کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
اس مسئلے کے حل کے طور پر “5 Rights of Medication Administration” کا سسٹم نہایت مؤثر ہے: Right patient, Right drug, Right dose, Right route, Right time۔ نرسوں کو ان پانچ اصولوں کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔ مزید برآں، الیکٹرانک میڈیکل ریکارڈز (EMRs) کا استعمال دواؤں کے انتظام میں غلطیوں کو کم کرتا ہے۔
ناکافی دستاویز بندی: کیس ہسٹری کا نقصان
صحیح دستاویز بندی نہ ہونا ایک ایسی غلطی ہے جو اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہے لیکن اس کے اثرات دور رس ہو سکتے ہیں۔ اگر نرس مریض کی حالت، دی گئی دوا، یا ردِعمل کو ٹھیک سے ریکارڈ نہ کرے، تو اگلی شفٹ کی نرس یا ڈاکٹر مریض کی درست صورتحال سے بے خبر رہتے ہیں۔ اس سے مریض کی صحت متاثر ہو سکتی ہے یا ڈبل ٹریٹمنٹ کا خطرہ ہوتا ہے۔
اس کا حل ہے تفصیلی اور بروقت نوٹ لینا، اور ہر دوا، ٹریٹمنٹ یا مریض کے ردعمل کو ریکارڈ کرنا۔ آج کل ڈیجیٹل ریکارڈنگ سسٹمز جیسے EMRs نے اس کام کو آسان بنا دیا ہے۔ ادارے کو چاہیے کہ نرسوں کو EMR استعمال کرنے کی مکمل تربیت فراہم کرے اور ہر اندراج کا معیار یقینی بنائے۔
4imz_ ہاتھ دھونے کی عادت میں کوتاہی: انفیکشن کا خطرہ
ہاتھ دھونا بظاہر سادہ مگر نہایت اہم عمل ہے جو انفیکشن کنٹرول میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ نرسوں کی مصروفیت یا تیز رفتاری کی وجہ سے یہ عمل اکثر نظر انداز ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ہاسپٹل اکوارڈ انفیکشن (HAIs) کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ خاص طور پر ICU یا NICU جیسے حساس یونٹس میں یہ کوتاہی مریض کی جان خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
اس مسئلے سے بچنے کے لیے ادارے کو “Hand Hygiene Protocols” کا سختی سے نفاذ کرنا ہوگا۔ ہینڈ سینیٹائزر کی دستیابی، پوسٹرز اور یاد دہانیوں کا استعمال، اور اچانک معائنہ (random audits) مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ نرسوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ یہ عمل نہ صرف مریض بلکہ خود اُن کی اپنی حفاظت کے لیے بھی ضروری ہے۔
5imz_ ٹیم ورک کی کمی: کمیونیکیشن گیپ سے بڑھتی مشکلات
نرسنگ کا کام کبھی اکیلے انجام نہیں دیا جا سکتا، اور ٹیم ورک اس پیشے کا بنیاد ہے۔ مگر جب نرسوں اور دیگر ہیلتھ اسٹاف کے درمیان کمیونیکیشن واضح نہ ہو تو اس سے مریض کی کیئر پر منفی اثر پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر کی ہدایات مکمل طور پر نرس تک نہ پہنچیں، یا نرس اپنی تشخیص رپورٹ نہ کرے، تو مریض کی حالت بگڑ سکتی ہے۔
اس کے حل کے لیے “SBAR Communication Tool” (Situation, Background, Assessment, Recommendation) بہت مؤثر ہے، جو مختصر اور واضح انداز میں معلومات پہنچانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اداروں کو چاہیے کہ وہ نرسوں کو اس ٹول کی تربیت دیں اور روزمرہ بات چیت میں اس کے استعمال کو فروغ دیں۔
6imz_ تھکن اور برن آؤٹ: ذہنی دباؤ سے جسمانی کوتاہی تک
نرسوں کی طویل شفٹیں، جذباتی دباؤ، اور جسمانی تھکن انہیں برن آؤٹ کا شکار بنا دیتی ہیں۔ برن آؤٹ نہ صرف نرس کی صحت بلکہ اس کے کام کی کوالٹی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ جب ایک نرس ذہنی طور پر تھکی ہوتی ہے تو اس کی توجہ بٹ جاتی ہے، فیصلے میں غلطی کا امکان بڑھتا ہے اور کام کا معیار متاثر ہوتا ہے۔
اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے لازمی ہے کہ نرسوں کو آرام کے وقفے دیے جائیں، انہیں ذہنی صنرسنگ غلطیاںحت کی سہولتیں دی جائیں، اور شیڈولنگ میں لچک پیدا کی جائے۔ اداروں کو چاہیے کہ وہ “Wellness Programs” کا انعقاد کریں جہاں نرسیں مراقبہ، یوگا، یا کونسلنگ سے فائدہ اٹھا سکیں۔
*Capturing unauthorized images is prohibited*